Family Planning ضبط ولادت

Family Planning ضبط ولادت

قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ بچے کم پیدا کئے جائیں سورہ النساء میں تعداد ازواج کے بارے میں ارشادِ عالی ہے کہ مستقل اصول تو یہی ہے کہ فَوَاحِدَۃً(4:3) ایک ہی بیوی ہونی چاہئے۔ یہی بات قرآنِ کریم نے سورۂ انبیاء میں فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں زوجین پیدا کیا ہے۔وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۴۵(45:53) ترجمہ: کہ اور بیشک اس نے نر اور مادہ کا جوڑاپیداکیا۔ دوسرے مقام پر ارشادِ عالی ہےفَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَوَالْاُنْثٰى۝۳۹ۭ(39:75) ترجمہ: پھر کیا اس نے جوڑا جوڑا پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے زوجین پیدا کیا یعنی ایک مرد اور ایک عورت ایک مرد اور چار بیویاں زوجین نہیں ہوسکتے۔ مستقل اصول یہی ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت اگر کوئی شخص اپنی موجوہ بیوی کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتا اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دے گا اور دوسری بیوی اس کی جگہ لے گی ۔زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ۝۰ۙ(20:4) بیوی کی جگہ بیوی۔ دو بیویاں ایک وقت نہیں ہوسکتیں۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ جنگ کی یا کسی اور وجہ سے مردوں کی تعداد کم ہوجائے تو مردوں کو اجازت ہے۔ کہ اگر وہ دو بیویوں کے درمیان عدل قائم کرسکتے ہیں۔ تو وہ شادیاں  کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ عام حالات میں نہیں ہوسکتا اس میں ہنگامی حالات کا ہونا ضروری ہےاور حکومت وقت کی اجازت ضروری  ہے یا حکومت خود ہنگامی حالات کا اعلان کردےاورلوگوں کو حالات کے مطابق دو تین یا چار شادیوں کی اجازت دے سکتی ہے کیونکہ حکومت کو عورتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ ایک نکاح کا مستقل اصول اس وجہ سے ہےذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا (3:4) یہ ایک بیوی کی پابندی اس وجہ سے لگائی ہے تاکہ تم زیادہ عیال دارنہ بن سکو۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی مفردات میں تحریر کیا ہے کہ عول ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اس کو گرانبار کردے اور وہ شخص اس بوجھ کے تلے دب جائے۔عالۃ اس نے فلاں آدمی کےاخراجات کا بوجھ اٹھایا۔ امام راغب میں لکھا ہے اثدء بنفک ثم بمن تقول اپنی ذات پر خرچ کرو اور پھر ان پر جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہیں۔ امام راغب نے یہ بھی تحریر کیا ہے اعال الرجل وہ آدمی کیثرالعیال ہوگیا۔ لغات القرآن میں الاتعولوا کا ترجمہ لکھا ہے تم کثیر العیال ہو کر بوجھ کے نیچے نہ دب جائو۔ قرآن کریم کی واضح تعلیم یہی ہے کہ بچے کم پیدا کرنے جائیں تاکہ تم ان کے رزق فراہم کرنے کی ذمہ داری کے نیچے نہ دب جائو۔ ہمارا مذہبی، علماء کرام نہ تو تعداد ازواج کا پابند ہونا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی منصوبہ بندی کا۔ ان کی عمومی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جب ایک پیدا ہوتا ہے تو اس کا ایک منہ ہوتا ہےاوراسکے دو ہاتھ ہوتےہیں۔ وہ بخوبی اپنا گزارہ کرسکتا ہے۔ اس کے حصول رزق کی ذمہ داری مشکل نہیں ہوتی لیکن ان کی یہ دلیل کمزور ہے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے اس کا منہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور دودھ کا طلب ہوتا ہے جبکہ اس کے ہاتھ20 سال بعد رزق کمانا شروع کرتے ہیں۔ اس لئے یہ دلیل درست نہیں ہے بعض مرتبہ ملکی حالات اس درجہ ناگفتہ بہ ہوجاتے ہیں کہ تیس , بیس ہاتھ کے باوجود بھی جائز طور پر انسان روزی نہیں کماسکتا، اس لےٴ بچوں کی پیدائش میں وقفہ ہونا ضروری چیز ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کادہن فوری بعد کام کرنا شروع کردیتا ہے لیکن اس کے ہاتھ 20 سال بعد کام کرنا شروع کرتے ہیں

Written by :  Khawaja Azhar Abbas