Distribution of Provision – A Request to Chief Justice of Pakistan

جناب چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں ایک گزارش

Everyone Ought to Spend on Others Beyond Once Needs

جس رزق کی تقسیم قانونِ خداوندی کے مطابق نہیں ہوتی اس رزق کا ایک ایک لقمہ حرام ہوتا ہے۔ رزق دولت کی تقسیم کے قوانین اللہ تعالیٰ نے خود بنائے ہیں۔ اگر ان قوانین کے مطابق رزق و دولت کی تقسیم کی جائے تو کوئی آدمی نہ بھوکا رہ سکتا ہے اور نہ مفلس (6:11، 151:6،31:17) وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ (219:2) ترجمہ: لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں دوسروں کی فلاح کے لئے کیا کچھ خرچ کریں آپ کہہ دیں جو کچھ بھی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو۔ قرآنِ کریم کے تمام مترجمین اور مفسرین نےالْعَفْوَ کا ترجمہ ’’ جو اپنے خرچ سے بچے۔‘‘ اپنی ضرورت سے زیادہ۔ کیونکہ جب اسلامی مملکت ہر شہری کی ہر ضرورت پوری کرنے کی پابند ہے۔ تو دولت کو اپنے پاس جمع رکھنے کے دردِ سر کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
سورہ الاعراف میں حکم دیتے ہوئے ارشادِ عالی ہوتا ہےخُذِ الْعَفْوَ(199:7)، ان کے پاس جو کچھ بھی ان کی ضروریات سے زیادہ ہے اس کو ان سے لے کر۔ اس حکم کا اطلاق ہر اس سربراہِ مملکت پر ہوتا ہے جو ریاست مدینہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس آیت میں ضرورت سے زیادہ دولت لینے کی اجازت نہیں ہے بلکہ یہ سربراہِ مملکت کو ایک حکم ہے۔ جس کی اطاعت لازمی ہے۔
ہماری جناب چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ وہ قرآن کریم کے اس حکم کو ریاست ِ پاکستان کے ایک قانون کے طور پر جاری فرمائیں۔ اور سربراہِ مملکت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں سے زائد از ضرورت دولت لے کر اس کوڈیمز کی تعمیر اور قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے خرچ کریں۔