Mah-e-Ramzan ke Rozon mein qaza krny ki riyatein -o- Rukhsatein

ماہِ رمضان کے روزوں میں قضا کرنے کی رعایتیں و رخصتیں

سورہء بقرہ میں روزوں کی فرضیت کی آیات، آیت نمبر 183 سے 185 تک تین آیات آئی ہیں ارشاد عالی ہے
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہلا ۳۸۱ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْن 2/184
اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے اگلوں پر فرض کئے گئے تھے گنتی کے چند روزے ہیں پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر ہو تو اس پراور دنوں سے ان کی گنتی ہے اور جن کوطاقت ہے روزہ کی ان کے زمہ بدلہ ہے کہ ایک فقیر کا کھانا
ان دو آیات میں روزہ قضا کرنے کی رعایت دی گئی ہے ہماری شریعت میں جس کی ہم اور ہمارے علماء کرام پیروی کرتے ہیں صرف مریض اور مسافر کو قضا کرنے کی اجازت ہے ہمیں اس بات سے اتفاق ہے لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ قرآن کریم ان لوگوں کو بھی قضا کرنے کی رخصت دیتا ہے جو روزہ رکھ تو سکتے ہیں لیکن انہیں روزہ رکھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے اور وہ بہ دقت روزہ رکھ سکتے ہیں اس کی سند ہم آیت کے اگلے حصہ سے لیتے ہیں جہاں ارشاد عالی ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْن 2/184 اس مضمون کا موضوع آیت کا صرف یہ حصہ ہے اس مضمون کا موضوع روزہ،اس کی فضیلت،اس کے متعلقہ احکامات وغیرہ نہیں ہے بلکہ اس مضمون کا فوکس صرف آیت کا یہ حصہ ہے ارشاد عالی ہے یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْن اس کا عام طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے اور جنہیں روزہ رکھنے کی طاقت ہے ان کے ذمہ بدلہ ہے ایک فقیر کا کھانا عام طور پر ہمارے مفسرین اور مترجمین نے اس آیت کا یہی ترجمہ کیا ہے یعنی جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں وہ تو ایک مسکین کا کھانا فدیہ دے دیں اور جو طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ضرور روزہ رکھیں یہ ترجمہ بالبدایت غلط معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے اوپر ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ ہے اور جو لوگ طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ضرور روزہ رکھیں شیخ الہند کے اس ترجمہ پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے حاشیہ پر تحریر فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتے ہیں لیکن ابتداء میں چونکہ روزہ رکھنے کی بالکل عادت نہیں تھی اس لئے ایک ماہ کامل پے در پے روزے رکھنا ان پر شاق تھا تو ان کے لئے یہ سہولت فرمادی گئی تھی کہ اگر چہ تم کو کوئی عذر مثل مرض یا سفر میں پیش نہ ہو مگر صرف عادت نہ ہونے کے سبب روزہ تم کو دشوار ہو تو اب تم کو اختیار ہے چاہے روزہ رکھو چاہو تو روزہ کا بدلہ دے دو ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤکیونکہ جب اس نے ایک دن کا کھانا دوسرے کو دے دیا تو گویا اپنے نفس کو ایک روزکے کھانے سے روک لیا اور فی الجملہ روزہ کی مشاہبت ہوگئی پھر جب وہ لوگ روزہ کے عادی ہوگئے تو یہ اجازت باقی نہیں رہی۔
اس آیت کی تفسیر کی ذیل میں تفسیر ابن کثر میں ہے حضرت معاذ بیان فرماتے ہیں کہ ابتداء ِ اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا حضرت مسلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوگئی حضرت ابن عمر بھی اس آیت کو منسوخ کہتے ہیں تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 235۔
اس آیت کا ترجمہ اور اس کی تفسیر ہم نے تفسیر ابن کثیر اور ترجمہ شیخ الہند سے مولانا عثمانی کا حاشیہ پیش خدمت عالی کیا ہے تقریباََ تمام مترجمین اور مفسرین نے یہی کچھ لکھا ہے لیکن آپ خود غور فرمائیں کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر بالبدایت غلط معلوم ہوتی ہے انہوں نے سب نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن واضح رہے کہ نسخِ آیات کا عقیدہ خود قرآن کے خلاف ہے اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش خدمت عالی ہے کہ روزے کی فرضیت ہی کیا ہوئی جب کہ اس بات کی کھلی اجازت موجود تھی کہ کوئی شخص چاہے تو روزہ رکھ لے اور نہ چاہے تو نہ رکھے اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ابتداء میں حکم کی یہ حالت تھی تو اس کی فرضیت بالکل بے اثر تھی۔
اس تفسیر پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو مریض اور مسافر دونوں کے لئے دوسرے دنوں میں اپنے قضا کئے ہوئے روزوں کی تعداد روزے رکھ کر پورے کرنے کا حکم جیسا کہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر کے الفاظ سے واضح ہے اور دوسری طرف یہ آزادی ہوکہ جو شخص چاہے روزے رکھے اور جو شخص چاہے مقدرت کے باوجود نہ رکھے صرف ایک مسکین کو کھانا کھلادے ا س کے معنی تو یہ ہوئے کہ مریض اور مسافرپر تو یہ پابندی ہے کہ وہ روزے ضرور رکھیں یہاں تک کہ اگر سفر یا مرض کے سبب سے متعین دنوں میں رکھ سکیں تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کریں درآنحالیکہ دوسروں پر کسی حالت میں بھی روزے رکھنا ضروری نہیں اور تندرست اور مقیم بھی چاہے تو روزے کا بدل ایک مسکین کو کھانا کھلا کر پورا کر سکتاہے (تدبر قرآن جلد اول صفحہ 447۔
اصل یہ ہے کہ ہمارے مفسرین نے یُطِیْقُوْنَہ کا ترجمہ جو اس کی طاقت رکھے غلط کی اہے عربی زبان میں یُطِیْقُوْنَہ کے معنی جو کام بہ مشقت کیا جا سکے ہے مسافر اور مریض کے علاوہ یہ تیسرا طبقہ ہے جن کو روزہ قضا کرنے کی رعایت ہے قرآن نے فرمایا کہ اگر تندرست گھر پر موجود ہے تو وہ روزہ رکھے مریض ہے تو مرض کے بعد روزہ رکھے مسافر ہے تو واپسی کے بعد روزہ رکھے اور شخص جس میں اب روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہیں رہتی وہ اتنا بوڑھا ہے کہ وہ نہ اب روزہ رکھ سکتاہے نہ اگلے سال اسے قضا کرنے کی رخصت ہے آپ اس حکم کی جامعیت ملاحظہ فرمائیں اس کے بعد انسانوں کا کوئی فرد اس کے با ہر نہیں رہتا۔
ارشاد عالی ہے کہ 2/286 اس کا ترجمہ ہے جس کا بجا لانا ہمیں دشوار ہو جس کے ہم متحمل نہ ہو سکیں۔ تاج العروس عربی کی مستند ترین لغت ہے اس میں مرقوم ہے الطاقتہ اس قوت کو کہتے ہیں جس سے کوئی کام کرنا کسی انسان کے لئے بہ مشقت ممکن ہو۔امام راغب اصفہانی نے اپنی مفرداۃ القرآن میں رقم کیا ہے کہ الطاقتہ اس قوت کا نام ہے جس سے کسی کام کا کرنا،کسی انسان کے لئے بہ مشقت ممکن ہو علامہ زنخشری کی کشاف اور علامہ آلوسی کی روح المعانی نے بھی اس معنی کی تائید و تاکید کی ہے ان حضرات نے الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ اس سے مراد بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں ہیں۔
تفسیر عروۃ الوتقی علامہ عبدالکریم اثری مرحوم کی تحریر کردہ مشہور و مستند تفسیر ہے انہوں نے بھی اس زیرِ غور آیت کی تفسیر میں ہماری ہی تائید کی ہے وہ اس آیت کا ترجمہ وہ ہی کرتے ہیں جو ہم نے عربی قوائد کے مطابق کیاہے انہوں نے اس کا یہ ترجمہ تحریر فرمایا اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کیلئے روزہ رکھنا نا قابل برداشت ہو تو ان کے لئے روزے کے بدلے ایک مسکین کا کھانا کھلادینا ہے اس ترجمہ کے بعد پھر انہوں نے ایک بخلی سرخی دی ہے مسافر،بیمار، اور جن کے لئے روزہ رکھنا نا قابل برداشت ہو وہ کیا کریں اس بخلی سرخی ذیل میں پہلے انہوں نے مسافر اور بیمار کی رعایت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے پھر اس کے بعد تحریر کیا ہے اور جو لوگ اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں یا ایسے بیمار ہیں کہ صحت مند ہونے کی توقع نہیں ہے تو وہ کیا کریں فرمایا وہ روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اس آیت کی وسعت نے ساری دشواریوں اور تنگیوں کو بیک قلم دور کردیا اور مسافروں بیماروں دودھ پلانے والیوں،حاملہ عورتوں کے لئے سہولت پیدا کردی اور جدید دور میں جو نئی صورتیں پیدا ہو رہی ہیں سب کا ازالہ کردیا تفسیر عروۃ الوتقی جلد اول میں 659 تفسیر نمونہ مشہور و مستند تفسیر ہے اس میں آیت کا یہ ترجمہ مرقوم ہے اور جو لوگ یہ کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتے مثلاََ دائمی مریض بوڑھے مرد اور عورتیں ضروری ہے کہ وہ کفارہ ادا کریں اور ایک مسکین کو کھانا کھلادیں۔اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ کا مادہ طریق ہے جس میں اصلی معنی ہیں وہ حلقہ جو گلے میں ڈالتے ہیں یا جو طبعی طور پر گردن میں ہوتاہے(جیسے رنگدار حلقہ جو بعض پرندوں کے گلے میں ہوتاہے بعد از ان یہ لفظ انتہائی توانائی اور قوت کے معنی میں استعمال ہونے لگا یُطِیْقُوْنَہ کی آخری ضمیر روزے کی طرف اشارہ کر رہی ہے اس طرح اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنہیں روزے کے لئے انتہائی قوت اور توانائی کا خرچ کرنا پڑے اور روزہ رکھنے میں انہیں سخت زحمت اٹھانا پڑے جیسا کہ بڑے بوڑھے اور نا قابل علاج بیمار ہیں روزہ ان کے لئے معاف ہے اور وہ اس کی جگہ صرف فدیہ ادا کردیں لیکن بیمار اگر تندرست ہوجائیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ قضا روزہ رکھیں بہرحال مندرجہ بالا حکم منسوخ نہیں ہوا اور آج بھی پوری طاقت سے باقی ہے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ پہلے روزہ واجب تخیری تھا اور لوگوں کی اختیار دیا گیا تھا کہ وہ روزہ رکھیں یا فدیہ ادا کردیں آیت میں موجود قرائن اس کی تائید نہیں کرتے اور اس پر کوئی واضح دلیل بھی موجود نہیں ہے تفسیر نمونہ۔جلد اول صفحہ 435۔
ہم نے یہ مضمون اس لئے رقم کیا ہے کہ ہمارے علماء اس تیسری رعایت کے قائل نہیں اور اس کو بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں اس لئے ہمارا غریب نا خواندہ طبقہ بھی قرآن کی اس رعایت سے واقف نہیں ہے ہمارے مزدور اور وہ عورتیں جو گھروں میں نجی کام کرتی ہیں اور عرف عام میں جنہیں ماسی کہا جاتاہے وہ سب اس طبقہ میں آجاتے ہیں ہمارے مزدور جو 60 سال کی عمر میں ہوتے ہیں 40 سال کے معلوم ہوتے ہیں ان مزدوروں اور ماسیوں کے کام مشکل ہوتے ہیں اور وہ بمشقت ہی روزہ رکھ سکتے ہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے ان مزدوروں اور ماسیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے افلاس کی وجہ سے باسی روٹی اور باسی دال سے روزہ افطار کرتے تھے ان کی صحت اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ روزہ رکھیں لیکن چونکہ ان کو اسی تیسری رعایت کا علم ہی نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر روزہ رکھنا فرض ہے ہماری علماء کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس رعایت سے غربا اور مزدوروں کو ضرور آگاہ کریں ہم نے بھی یہ مضمون ان سے محبت ہونے کی وجہ سے تحریر کیا ہے۔

ضمیمہ ماہِ رمضان کے روزے

مولانا امین احسن مرحوم عربی ادب کے امام تھے۔انہوں نے اس آیت کا مفہوم عام روش سے ہٹ کے لیا ہے انہوں نے یُطِیْقُوْنَہٗ کی آخری ضمیر کا مرجع صوم کی بجائے طعام کو قرار دیا ہے اور خود ہی اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس طرح طعام کو مرجع بنانے سے اضماء قبل الذکر واقع ہوتاہے جو بلیغ کلام میں ایک نقص سمجھا جاتا ہے اس با ت پر ہم بھی حضرت اقدس سے اتفاق کرتے ہیں کہ قرآن میں اضماء قبل الذکر نہیں ہونا چاہیئے۔
دوسری بات قابل ذکر یہ ہے کہ موالانا کو الطاقتہ کے معنی مشقت کے ساتھ کوئی کام کرنا پر اعتراض نہیں انہوں نے فرمایا کہ عربی ادب میں اس کی سند نہیں۔مولانا کا ارشاد حقیقت پر مبنی نہیں ہم نے خود اپنے مضمون میں کئی حوالہ لغات سے دیے ہیں اور وہ لغات بڑی مستند ہیں۔
شروع میں ہمارا خیال تھا کہ ہم اس آیت کے سلسلہ میں مولانا کا حوالہ نہیں دیں گے لیکن طبیعت اس بات پر مطمئن نہیں ہوئی کہ اس طرح تفسیر کے دوسرے رخ کو چھپا دیا جائے اس طرح کتمان حقیقت کا ارتکاب ہوتا مولانا نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی جو تفسیر کی ہے وہ کئی صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں زیادہ تر عربی قواعد ہیں جو ہمارے قارئین کی سمجھ میں نہیں آتے اس لئے ہم اس کو Re-Produce نہیں کر رہے۔
اس علمی اختلاف کے باوجود ہمارے دل میں مولانا کا بہت اکرام و احترام ہے ہم نے ان سے بہت استفادہ کیا ہے وہ صحیح معنی میں با عمل تھے قرآن کے عاشق اور اس کے بہت بڑے مفسر تھے۔ اللہ آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اہم مقام عنایت فرمائے۔